کورونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں
In this section we are going to provide Corona Virus Essay in Urdu. Read in detail below.
مجبور ہوں کرنے پہ تیری بات کرونا ؎
ہر چند کے تو ہے بڑی بدذات کرونا
سب مشرق و مغرب کے ہیں انسان برابر
یہ تو نے عجب کی ہے مساوات کر ونا
تعارف
وبا ہوا کی خرابی کے باعث مرگ عام کو کہتے ہیں۔ دنیا نے ہر صدی میں بے شمار وباوں کا سامنا کیا ہے۔ جس میں سپنشن فلو، برڈ فلو وغیرہ شامل ہیں جو کئی جانوروں کو نکلتے گئے۔ لیکن کرونا با بیسویں صدی کا ایک بھیانک باب ہے۔جس نے لوگوں کی امیدوں اور خوابوں کو سبوتاژ کیا ہے ۔
اور زندگی کے حسین لمحوں میں اماوس کی کالی رات ثابت ہوا ہے۔طاقتور اقوام اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار بنا نے میں کھربوں روپے سالانہ خرچ کرتی رہی ہیں۔اور خود کو ناقابل تسخیر سمجھتی رہی لیکن کورونا نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔(you are reading Corona Virus Essay in Urdu)
درد کیا لکھ ہو درد کی دوا کیا لکھوں؎
ہر سو وبا ہے وبا کے سوا کیا لکھوں
تعارف جاری
کرونا لاطینی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی تاج یا حالہ کے ہیں ۔چونکہ اس وائرس کی شکل سورج کے ہالے سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے اسے کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے۔کرونا وائرس ایک بہت بڑی وائرس کی فیملی کا نام ہے جو ایک بیماری پیدا کرتے ہیں جس میں عمومی بخار سے لے کر سخت بیمار یاں جیسا کہ وسطی ایشیا کی سانس کی وبا اور پیچیدہ جان لیوا سانس کی وبا شامل ہیں ۔یہ ایک نیا وائرس ہے جو اس سے پہلے انسانوں میں نہیں پایا گیا۔ اور یہ ان جگہوں کو چھونے سے پھیلتا ہے جن پر یہ پہلے سے موجود ہو۔
سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا کا قاتل ہے؎
یوں ہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے
حالیہ وبا کا آغاز 31 دسمبر 2019 کو چین کے شہر ووہان سے ہوا ۔چونکہ یہ وائرس 2019 میں دریافت ہوا اس لیے ایسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا ۔اس نے آہستہ آہستہ وبا کی شکل اختیار کی اور دنیا کے کونے کونے میں اپنے پنجے گاڑ لئے۔ کروڑوں لوگ اس سے متاثر ہو کر جان کی بازی ہار گئے اور پوری دنیا میں خوف کی لہر دوڑ گئی ۔
خوف و ہراس پھیلا ہے قرب و جوار میں؎
جب سے یہ وبا آئی ہے اپنے دربار میں
ایک پل تو یوں لگا کہ کرو نا مجھے بھی ہے
میں نے علامتیں جو پڑھیں اشتہار میں
کورونا وائرس پاکستان میں
(Corona Virus Essay in Urdu)
پاکستان میں کرونا کا پہلا مریض فروری 2020 میں سامنے آیا۔ پاکستان میں کورونا سب سے پہلے ایران سے آنے والے پاکستانی زائرین میں پایا گیا ۔ان زائرین کو تفتان بارڈر پر روکا گیا۔ مگر کئی دن گزرنے کے بعد بھی ان کے ٹیسٹ نا کیے گئے۔
بعد ازاں ان کو اپنے گھروں میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ جب یہ زائرین اپنے اپنے گھروں کو گئے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آ گئی ۔اسی دوران میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا ۔اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ وائرس پاکستان میں پھیل گیا ۔
کیسا موسم ہے بے یقینی کا؎
فاصلہ ان دنوں شفا ٹھہری
کورونا وائرس کی علامات
کرونا کی تین بڑی علامات ہیں ۔پہلی علامت نئی اور مسلسل کھانسی ہے ۔ایک گھنٹے سے زیادہ تک آنے والی کھانسی یا چوبیس گھنٹوں میں تین مرتبہ کھانسی کے دورے آناکورونا کی علامت ہو سکتے ہیں۔ دوسری علامت بخار ہے۔ جو عموماً ایک سو فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے ۔تیسری علامت سونگھنے اور چکھنے کی حس میں فرق آنا ہے۔ سونگھنے اور چکھنے کی ہیں یا تو مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے یا اس میں فرق آ جاتا ہے ۔
اس کے بحال ہونے میں کافی عرصہ درکار ہو سکتا ہے ۔انگلینڈ کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا سے متاثر ہونے والے 85 فیصد لوگوں میں کم از کم ایک علامت ظاہر ہوئی ہے ۔اگر کسی شخص میں مذکورہ بالا علامات میں سےکوئی ظاہر ہوتی ہے تو اسے چاہیے کہ فوراً اس کی تصدیق کے لئے کروائے ۔ ٹیسٹ کے نتائج آنے تک خود کو تمام لوگوں سے الگ تھلگ رکھے ۔تاکہ دوسروں کی جان کو بچایا جا سکے۔ عموماً انفیکشن لگنے سے لے کر علامت ظاہر ہونے تک اوسطاً پانچ دن لگتے ہیں ۔ لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس میں 14 دن بھی لگ سکتے ہیں ۔
بند ہو جائے گی ایک دم زندگی ایسا سوچا نہ تھا؎
یہ جواب ہو گیا خواب میں بھی کبھی ہم نے دیکھا نہ تھا
کورونا کا پھیلاو
یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کرونا وائرس سے متاثرہ شخص کے پاس بیٹھنے اور میل جول رکھنے سے یہ صحت مند افراد میں بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ ہر پرہجوم جگہوں میں جانے اور ان چیزوں کو چھونے سے جن پر یہ پہلے سے موجود ہوتا ہے انسان کے جسم کے مختلف حصوں ہاتھوں پاؤں وغیرہ پر منتقل ہو جاتا ہے۔ بعد میں یہی ہاتھ جب منہ آنکھوں اور ناک پر لگتے ہیں تو یہ وائرس جسم کے اندر داخل ہو کر جسم کے اعضاء کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے ۔اور اگر جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو تو یہ انسان کی جان بھی لے سکتا ہے ۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی ؎
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
اگرچہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ کرونا کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ مگر اب تک ایسی مستند دواسامنے نہیں آئی جو اس بیماری کا علاج کرنے کے لئے ڈاکٹروں کی مدد کر سکے۔ اس لیے پوری دنیا میں ہزاروں ادویات پر تحقیق ہو رہی ہے۔ ان میں اکثر وہ ہیں جو پہلے مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔ اور اب انکا اس وائرس کے خلاف بھی ٹرائل کیا جا رہا ہے ۔ کئی تحقیقی سنٹرز پر کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کے خون سے علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
پھیلاو کی روک تھام
اس سلسلے میں تین وسیع نقطہ نظر پر کام ہو رہا ہے۔ پہلی اینٹی وائرل ادویات کے استعمال سے کرونا وائرس کے جسم کے اندر پھیلنے کی صلاحیت پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہیں۔ دوسری وہ دوائیں جو مدافعت کے نظام کو بہتر حالت میں لا سکتی ہیں۔
اور تیسری ایسی اینٹی باڈیز جو وائرس پر حملہ کر سکیں چاہے وہ کسی صحت یاب شخص کی یہ سب سے لی گئی ہوں یا لیبارٹری میں تیار کی گئی ہوں۔ دوا کی تلاش جاری ہے مگر فی الحال ہمارے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازم ہے ۔اور دوسروں سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرنا ہے ۔
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمین کے باسی؎
اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے بستی والوں کے
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے بھی گئی
وائرس کے اثرات
کورونا وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے اور بیماری پھیلانے میں مختلف دورانیے شامل ہیں۔ ان میں پہلا نہگداشت کا دورانیہ ہے ۔جس میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرس جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ وائرس گلے ،سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں موجود خلیوں کو متاثر کرتا ہے اور انہیں کرونا وائرس کی فیکٹریوں میں تبدیل کردیتا ہے ۔جوکہ مزید وائرس پیدا کرتی ہیں۔ اس دورانیے میں انفیکشن ہونے اور ان کی علامات ظاہر ہونے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے لیکن اوسطاً پانچ دن بتایا جاتا ہے ۔
کچھ بھی خطرہ نہیں کرو نے سے؎
سارا خوف ہے اپنے ہونے سے
زیادہ تر افراد کی بیماری کے دوران ایک جیسے تاثرات ہوتے ہیں ۔یہ دس سے آٹھ لوگوں کے لئے معمولی سا انفیکشن ہوتا ہے۔ بخار اور طبیعت میں گرانی جسم میں انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت کے ردعمل کی وجہ سے ہوتی ہے ۔قوت مدافعت وائرس کو مشکلات پیدا کرنے والے حملہ آور کے طور پر شناخت کرتا ہے۔ اس وجہ سے مدافعتی نظام حرکت میں آجاتا ہے ۔لیکن اس وجہ سے جسمانی تکلیف ،درد اور بخار کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ مرحلہ ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ بیشتر لوگ اس مرحلے کے دوران صحت یا ب ہو جاتے ہیں تاہم کچھ لوگوں میں نسبتا ًسنگین حالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر نتھالی میکڈورموٹ
شدید بیماری میں مدافعتی نظام وائرس کے خلاف ضرور ت سے زیادہ ردعمل دکھاتا ہے۔ بہت زیادہ انفیکشن سے پورے جسم میں نقصانات پیدا ہوتے ہیں۔ کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر نتھالی میکڈورموٹ کہنا ہے
یہ وائرس مدافعتی نظام میں عدم توازن پیدا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت زیادہ سوزش ہوتی ہے ۔ یہ کس طرح کاہے ابھی ہم نہیں جان پائے ۔
وائرس سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں تو ساس اکھرنے لگتا ہے ۔ کچھ لوگوں کو سانس لینے کے لئے وینٹی لیٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اس بیماری میں مبتلا افراد میں سے صرف چھ فیصد کی حالت تشویشناک حد کو پہنچی جب جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا اور موت کے امکانات پیدا ہوئے ۔ایسے مریضوں میں وائرس کی وجہ سے ہونے والا نقصان ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور اعضاء جسم کو زندہ رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
شور ہے ہر طرف کرونا کا؎
اور طبیعت بھی کچھ اجاڑ سی ہے
موت برحق ہیں ہم بھی مانتے ہیں
پرو با کی عجیب دھاڑ سی ہے
بچاو کی تراکیب
کرونا وائرس کی ویکسین ایجاد نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو چند احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اپنے ہاتھوں کو صابن سے بیس سیکنڈ تک دن میں کئی مرتبہ دھونا ضروری ہے ۔ کھانستے اور چھینکتے ہوئے اپنے منہ اور ناک کو ٹشو یا کہنی سے ڈھانپیں۔ ٹشو استعمال کرکہ فوراً پھینک دیں۔
اگر کوئی فرد کھانستا ہوا یا چھینکتا ہوا نظر آئے تو اس سے کم ازکم چھ فٹ فاصلہ فاصلہ رکھیں ۔صحت مند افراد کے لیے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے فیس ماسک کا استعمال نہایت ضروری ہے ۔اپنی آنکھوں ،ناک اور منہ کو ہاتھوں سے چھونے سے گریز کریں ۔اگر زیر استعمال رہنے والی اشیاء کو روزانہ اچھی طرح صابن سے صاف کریں تاکہ ان پر وائرس نہ رہ سکے ۔ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال اہم ہے۔ بیماری کی صورت میں فوری طبی امداد طلب کریں۔ اور سیلف آئی سو لیشن کو یقینی بنائیں ۔کیونکہ
پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
کورونا وائرس اب ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرچکا ہے۔اس وبا کے پیش نظر دنیا بھر میں غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سپین سے لے کر امریکہ تک حکومتیں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں ۔کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں کافی عرصہ لاک ڈاؤن نافذ رہاہے۔
کاروباری نقصان
بازار، مارکیٹیں، دفاتر، تعلیمی ادارے ،ہوٹل، ریستوران ،فیکٹریاں ،شادی ہالز کھولنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ بیرون ملک سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ بین الاقوامی پابندیوں کے ساتھ ساتھ اندرون ممالک میں بھی سفر روکنے کی کوشش کی گئی۔ اور لوگوں کو آپس میں میل جول اور اجتماعات میں شرکت سے روکا گیا ۔
R26 Most Common & Universal Essays (Topics) Asked in PMS/CSS & other Competitive Exams
عجیب ورد ہے جس کی دوا ہے تنہائی؎
بقائی شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
سفری پابندیاں
اس مسئلے میں تقریبا دنیا کے تمام ممالک نے یا تو ایئرپورٹس بند کر دیے یا ہوائی سفر کو بے حد محدود کر دیا تھا۔ یورپ میں بھی یہی صورتحال تھی ۔لیکن کرونا سے بیمار ہونے والے افراد کی تعداد میں واضح کمی اور اس پر کافی حد تک قابو پالینے کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کے دوران ایئرپورٹ بھی کھولے جا رہے ہیں ۔مگر اس وجہ سے اس پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔
Corona Virus Essay in Urdu
گھوم پھر کر نہ قتل عام کرے؎
جو جہاں ہے وہیں قیام کرے
معیشت پر اثرات
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت میں بھی بہت کمی بیشی آئی ۔ ترقی پذیر ممالک پر بہت ہی برے اثرات مرتب ہوئے ۔اس کی وجہ سے ممالک کی درآمدات اور برآمدات بھی روک دی گئیں۔ اس سے ترقی پذیر اقوام کو بے انتہا نقصان ہوا۔ وہ ملکی طور پر بھی بہت سی مشکلات میں مبتلا ہوگئے ۔پاکستان میں کرونا(Corona Virus Essay in Urdu) وائرس کی وجہ سے بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا ۔کھانے کے لئے لالے پڑ گئے ۔ہر کوئی پریشانی میں مبتلا تھا۔ شرح نمو صفر سے بھی کم ہوگئی۔ مزدوروں ، ڈرائیوروں اور جو لوگ روزانہ کام کرکے روٹی کماتے تھے وہ مکمل طور پر بے روزگار ہو چکے تھے ۔
عجب ایک سانحہ گزرا ہے کہ خلقت؎
ابھی تک زندگی سے ڈر رہی ہے
عالمی سطح پر غربت میں بڑا اضافہ ہوا ہے ۔خیراتی ادارے آکسفیم نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات عالمی غربت میں تقریباً نصف ارب تک کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق اس وائرس سے پیدا ہونے والے اثرات کے سبب معاشی بحران کہیں زیادہ شدید ہوگا ۔یہ تیس سال میں پہلی مرتبہ ہوگا جب عالمی سطح پر غربت میں بڑا اضافہ ہوگا۔
Corona Virus Essay in Urdu
اخلاقی قرروں میں گراوٹ
وبا کے حالات میں سرمایہ دار طبقے نے نئے منصوبوں میں پیسے لگانا چھوڑ دیے تاکہ وہ ان کو بچا کر رکھیں ۔ بہت سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی بھی شروع کردی جو ایک عام آدمی کے لئے پریشانی کا باعث ہے ۔امیروں نے ذخیرہ اندوزی کرکے تمام چیزیں اپنی ضروریات سے زیادہ جمع کرلیں اور مشکل حالات میں ایک غریب کے لیے انھیں مہنگا کردیا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
مہنگائی کے لئے ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجر پر اللہ کی طرف سے پھٹکار ہے۔ اور وہ اس کی رحمت و برکت سے محروم رہے گا ۔
بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے؎
یہ فیصلہ آدمی کو کرنا ہے
تعلیمی فقدان
کرونا وائرس کے پیش نظر ہونے والے لاک ڈاؤن نے پوری دنیا کے تعلیمی نظام کو بہت بری طرح متاثر کیا۔ سکولز اور یونیورسٹیز کے بند ہونے کی وجہ سے طلبہ تعلیم سے دور ہوگئے ہیں ۔اس وبا کی وجہ سے بچوں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کو بھی تنخواہیں ادا نہ کی جا سکیں۔ جس کی وجہ سے اساتذہ بھی معاشی طور پر بحال ہو گئے ۔
Corona Virus Essay in Urdu
کبھی سوچا نہ تھا ایسے بھی دن آئیں گے؎
چھٹیاں تو ہوگی پر منا نہیں پائیں گے
آئس کریم کا موسم بھی ہوگا پرکھا نہیں پائیں گے
راستے تو کھلے ہوں گے پر کہیں جانہیں پائیں گے
سیاحت پر اثرات
(Corona Virus Essay in Urdu)
عموما سیاحت ہر کسی کو پسند ہوتی ہے ۔روزمرہ کے ذہنی دباؤ سے بھرپور زندگی سے چھٹکارا پا کر دنیا کی سیر پر نکلنے کا سہانا خواب تو ہر کسی نے دیکھا ہوتا ہے ۔عام طور پر جب ہم کسی مقبول سیاحتی مقام پر جاتے ہیں تو وہاں پہلے ہی ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں ۔اور خوبصورت فن تعمیر کو اپنے پاس محفوظ رکھ محفوظ کرنے کے لئے تصویریں بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ مگر اب دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد مشہور سیاحتی مقامات بھی سنسان ہو چکے ہیں ۔
Corona Virus Essay in Urdu
وبا کے دن ہے میاں ،ہے الگ نظام حیات؎
بہار مرگ پنہاں ہے، اب بھی شام حیات
اوپر بیان کی گئی تمام باتوں سے یہ واضح ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس وبا کے برے اثرات سے نہ بچا ہے۔ ہمیں اب سخت حفاظتی تدابیر پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ کئی ممالک نے اس وبا کے لیے ویکسین تیار کرلی ہے۔ لیکن یہ ویکسین ابھی تجرباتی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔ تمام بنی نوع انسان کو اب اس مسلے پر یکجہتی کے ساتھ قابو پانا ہوگا۔ تاکہ اگلی آنیوالی نسلیں ایک صحت مند ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔
Download this essay in PDF below
I was pretty pleased to uncover this great site. I need to to thank you for ones time due to this wonderful read!! I definitely appreciated every little bit of it and i also have you saved as a favorite to look at new stuff on your web site.
After looking over a number of the articles on your site, I truly like your way of blogging. I bookmarked it to my bookmark website list and will be checking back in the near future. Please visit my website as well and let me know what you think.
Hello there, just became aware of your blog thru Google, and found that it is truly informative. I am going to be careful for brussels. I will be grateful if you happen to proceed this in future. Lots of other people will probably be benefited from your writing. Cheers!
Shukria Infohub
Well Done Sir