زر۔ زن۔ زمین۔۔
ازل سے دنیا میں انہی تین عناصر کے گرد قتل و غارت کا سلسلہ گھومتا آیا ہے۔ مگر اب اس میں ایک چوتھا نیا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے ۔جس کا نام ہوس ہے۔ہوس کسی بھی چیز کی ہوسکتی ہے۔ جسم، مال، آبرو سمیت بے شمار پہلو اس میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔
کلورکوٹ میں 17 اکتوبر کو رونما ہونے والا قتل کا واقعہ بھی اسی ہوس کے پہلو کے گرد گھومتا ہے۔ جسمیں ایک پاسنگ آؤٹ ہونے والے نوجوان آفیسر کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
رانا عثمان کلورکوٹ کے محلہ جھرولی میں رہائش پذیر رانا لیاقت کے گھر میں پیدا ہونے والا دوسرا بڑا بیٹا تھا۔ جو اپنے چھوٹے بھائی رانا حمزہ کے ملزم کے ساتھ غیر فطری تعلقات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رانا عثمان آج کل کے نوجوانوں کی طرح کھیلوں کا شیدائی تھا۔ اور تعلیمی طور پر بھی کافی انٹیلیجنٹ تھا۔آج کل کے نوجوانوں کی طرح اس کے بھی کئی ہمسفر اور دوست تھے۔ کہ کاتب تقدیر نے اس کے بارے میں انوکھا فیصلہ کیا۔ کاتب تقدیر نے 17 اکتوبر کواس کا دنیا میں مزید رہنے کا جواز ختم کر دیا۔ تبھی وہ اپنے سب سے قریبی دوست رانا تصور کے ہاتھوں قتل ہو کر دنیا فانی سے کوچ کر گیا۔ یہ قتل کیوں اور کس لیے ہوا؟ اس کے لئے آپ کو تمام جزئیات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ 17 اکتوبر کو اتوار کے دن رانا عثمان گھر سے حجامت کا بول کر نکلا تھا۔ کیونکہ اگلے روز اُسے اپنی پہلی پوسٹنگ پر کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا۔مگر وہ بعد از دوپہر پراسرار طریقے سے غائب ہوچکا تھا۔ پہلے پہل تو اس کے گھر میں نہ آنے کی تاخیر کو روایتی محسوس کیا گیا کہ وہ واپس شام تک لوٹ آئے گا۔ مگر جوں جوں شب کی تاریکی میں اضافہ ہوتا رہا ۔ تو توں توں اگلی صبح ہو جانے پر اُسکے گھر والوں کی وحشت میں اضافہ ہوتا رہا۔ 17 اکتوبر کے بعد 18 اکتوبر کا دن رانا لیاقت کے گھرانے پر قیامت کا پرتو بن کر طلوع ہوچکا تھا۔
18 اکتوبر کا دن اور رات بھی گزر گئی ۔مگر رانا عثمان کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔اس کے ماں باپ بہن بھائی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ پورے گھرانے کی سوچ ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ مظلوم گھرانے کی سوچ ختم بھی کیوں نہ ہوتی کیونکہ رانا عثمان اپنے غریب والدین کی آرزوؤں اور تمناؤں کا چمکتا ہوا سہارا اور ستارہ تھا۔ جو غربت کی کوکھ سے بڑا ہو کر اپنی لیاقت اور قابلیت سے پاک آرمی میں کمیشن آفیسر کے طور پر پاسنگ آؤٹ ہوکر کامران ہوا تھا۔
17 اکتوبر کی رات کو ہی تھانہ کلورکوٹ میں رانا لیاقت کی طرف سے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بارے میں درخواست دی جاچکی تھی۔پولیس نے والد رانا لیاقت کی درخواست پر مقدمہ نمبر 438 مورخہ 17 اکتوبر بجُرم 365 ت پ درج کر لیا تھا۔چونکہ رانا عثمان کمیشنڈ آفیسر تھا اس لیے پولیس گمشدگی کی رپورٹ لکھ کر آرام سے نہیں بیٹھی۔اور اس کی تلاش کے لیے متحرک ہو گئی۔تھانہ کلورکوٹ کے عین سامنے سرور ہوٹل ہے۔جہاں ہر وقت پولیس کا آنا جانا کھانا پینا رہتا ہے۔
وقوعہ کے دن یعنی 17 اکتوبر کو رانا عثمان کوسرور ہوٹل پر دیکھا گیا تھا۔چناچہ پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش کا آغاز ہوٹل کے مالک رانا تصور سے کیا جس نے پولیس کو چکما دیا کہ آج تو رانا عثمان ہوٹل پر نہیں آیا۔ چونکہ17 اکتوبر کے دن رانا عثمان کو سرور ہوٹل پر دیکھا گیا تھا۔ اور پولیس اس کے بارے میں باخبر تھی۔ کلورکوٹ کا بچہ بچہ راناعثمان اور رانا تصور کی دوستی کے بارے میں بخوبی علم رکھتا ہے۔
اسی دوران 17 اکتوبر کو رانا عثمان کے والد اور اس کے بھائیوں نے بھی رانا تصور سے رانا عثمان کے بارے میں دریافت کیا۔مگر وہ انکاری رہا۔ بلکہ وہ 17 اکتوبر کو رانا عثمان کے والدین کے ساتھ رانا عثمان کو تلاش کرتا رہا۔ 17 اکتوبر کو ہی پولیس کو اپنے مختلف ذرائع سے یہ جانکاری مل چکی تھی کہ وقوعہ کے دن مقتول رانا عثمان سرور ہوٹل پر دیکھا گیا ہے۔ 18 اکتوبر کو پولیس نے رانا تصور کے موبائل کو اپنے قبضے میں لے لیا۔اور 18 اکتوبر کو پولیس نے موبائل سے کی جانے والی اور وصول ہونے والی کالز کےریکارڈ کی سی ڈی آر کے لیے اپنے بھکر آفس سے رجوع کیا۔
19 اکتوبر کو سی ڈی آر میں رانا تصور کے موبائل سے مختلف چار نمبروں کے ذریعے کی جانے والی کالز کا ریکارڈ سامنے آگیا۔جب ان نمبرز کی معلومات لی گئی تو یہ چاروں نمبرز 4 پردہ نشینوں کے نام پر رجسٹرڈ پائے گئے۔جن کو ملزم رانا تصور استعمال کر رہا تھا۔پولیس تیزی سے ان پردہ نشینوں تک جا پہنچی۔ دو پردہ نشینوں کا تعلق کلورکوٹ اور دو کا بھکر سے تھا۔
کلور کوٹ کی دو میں سے ایک پردہ نشیں ایک معروف پارلر چلانے والی تھی۔ پردہ نشینوں کو جب تفتیش سے گزارا گیا تو وہ یہ بات نہ بتا سکیں کہ ان کے نام کی سمیں ملزم کے پاس کیوں ہیں؟
اب یہاں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ پردہ نشینوں کی سمیں ملزم کے پاس کیسےآئیں یا ملزم نے کیسے حاصل کیں؟
جبکہ پردہ نشیں خود ملزم کو اپنے نام کی سمیں دینے سے انکاری ہیں۔ ملزم کا انہیں سموں کے ذریعے مقتول سے رابطہ تھا۔ پولیس کا شک اب ملزم رانا تصور پر پختہ ہو چکا تھا۔مگر رانا تصور ہر بات سے انکاری تھا۔پولیس کی تفتیش اس سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔منگل کی شب ملزم کو تھانہ میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
یہاں یہ امر بھی لائق ہے ذکر ہے کہ 18 اکتوبر کو ایجنسی کو اپنے آفیسر کی گمشدگی کا پتہ چل چکا تھا۔ اور وہ پولیس سے رابطہ میں تھی۔اور وہ اپنے طور پر متحرک ہوچکی تھی۔
منگل کی شب تک پولیس اپنی تفتیش کو بند گلی میں محسوس کر رہی تھی۔دوسری طرف ایجنسی نے اپنے جدید سسٹم سے ان چاروں سموں کو جس موبائل سے وہ آپریٹ ہورہی تھی۔ ملزم کے موبائل کے آئی ایم ای آ نمبر سے پتہ چلا لیا تھا۔ وہ موبائل رانا تصور کے نام پر تھا۔ ہر موبائل کا اپنا ایک آئی ایم ای آئی نمبر ہوتا ہے۔ جدید سسٹم سے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ موبائل میں جو سم زیر استعمال ہے وہ کس کے نام پر ہے۔ چناچہ ایجنسی بہت تیزی سے ملزم تک آن پہنچی۔منگل کی شب تھانہ کلورکوٹ میں ایجنسی کی آمد ہوئی یہاں ملزم ایس ایچ او کے دفتر میں موجود تھا۔ ایس ایچ او کو کمرے سے باہر بھیج کر ایجنسی نے اپنے مخصوص طریقہ سے صرف پانچ منٹ کی تفتیش میں ملزم سے ساری کہانی اگلوالی۔اور اسے موقع پر واردات پر لے جاکر آلہ قتل بھی برآمد کرا لیا۔اور ملزم کا اقبالی بیان ریکارڈ کرا کر ثبوتوں کے ساتھ پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ پولیس نے پہلے سے درج شدہ ایف آئی آر میں قتل کی دفعات 302 اور 201 کو ایزاد کیا۔ 8 دِن تک رانا عثمان کی لاش نہر کے پانی کے نیچے رہی۔
ریسکو ٹیمیں تلاش کرتی رہیں۔ مگر 8 دِن بعد رانا عثمان کی باڈی از خود پانی کے اوپر آ گئی۔ کلورکوٹ میں صف ماتم بچھ گئی۔ فلک نے کلورکوٹ میں پہلی بار انسانوں کے سمندر کو جنازہ میں دیکھا۔ پاک فوج نے پورے وقار کے ساتھ تدفین کی۔ اور صدر مملکت اور چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے لحد پر پھول رکھے۔
ملزم رانا تصور جو مقتول رانا عثمان کا گہر ا دوست تھا اس نے دوستی کی آڑ میں یار ماری کیوں کی؟؟
کلورکوٹ میں آج کل نوجوانوں میں کرکٹ کا جنون نقطہ عروج پر ہے۔اکثر بیشتر اوقات کرکٹ کے نام پر مختلف لوگوں اور اداروں کی سپانسر سے کرکٹ میلے اور ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔بعض جنسی درندے بھی اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کے لئے کرکٹ میلوں اور ٹورنامنٹ کو سپانسر کرتے ہیں۔کیونکہ ان کو یہاں سے خوبرو لڑکے اپنی جنسی تسکین کے لئے باآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ مقتول رانا عثمان کرکٹ کا شیدائی تھا۔ کچھ دن پہلے ہی ملزم رانا تصور نے مقامی اسٹیڈیم میں ایک کرکٹ میلہ سپانسر کیا تھا۔ اس میلہ سے بہت پہلے ہی ملزم کی دوستی مقتول رانا عثمان سے ہو چکی تھی۔ جو اب رشتہِ داری میں بھی تبدیل ہونے جارہی تھی۔ بعد میں اس دوستی میں رانا عثمان کا چھوٹا بھائی رانا حمزہ بھی شامل ہوا۔ جنسیت کی لعنت میں مبتلا ملزم رانا تصور نے دوستی کی آڑ میں اس کے چھوٹے بھائی رانا حمزہ کو اپنی جنسی خواہشات کے لیے اپنے شیشہ میں اُتار لیا ۔ مقتول رانا عثمان اپنی پیشہ ورانہ ٹریننگ کے لئے کلورکوٹ میں نہیں تھا۔ تو پیچھے سے دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات چلتے رہے۔
پولیس نے اس ضمن میں جو رپورٹ مرتب کی ہے اس رپورٹ کے مندر جات انتہائی شرمناک ہیں۔ چونکہ یہ رپورٹ صحفہ مثل پر موجود ہے۔ اس لیے اس رپورٹ کے چند متعلقہ مندرجات درج ذیل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ کہ
“مسمیان حبیب مصطفی ولد غلام مصطفی قوم راجپوت سکنہ محلہ رائے اشتیاق۔ محمد انیس ولد محمد ادریس قوم راجپوت سکنہ محلہ جھرولی از خود حاضر آ کر شامل تفتیش ہوئے۔ جو حبیب مصطفی اور محمد انیس نے بتایا۔کہ امروز قریبن 05:45 بجے شام بیٹھک ازاں حبیب مصطفی پر موجود تھے ۔کہ مسمی محمد تصور ولد غلام سرور قوم راجپوت سکنہ محلہ موتی مسجد کلورکوٹ انتہائی پریشانی اور بوکھلاہٹ میں ہمارے پاس آیا۔کہ حمزہ لیاقت ولد لیاقت علی کے ساتھ میرے ناجائز تعلقات تھے۔اور میں نے حمزہ لیاقت کے ساتھ متعدد بار بدفعلی بھی کی تھی۔جس کی دوران تفتیش محمد حمزہ لیاقت نے بھی تائید کی ہے۔ جو اب اس کا بھائی محمد عثمان لیاقت میرے تعلقات میں رکاوٹ بن رہا تھا۔جو میں نے عثمان لیاقت کو اپنے راستہ سے ہٹانے کے لیے 17 اکتوبر کو دوپہر بذریعہ فائر قتل کرکے نعش پکی نہر میں پھینک دی تھی۔اب مجھے غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔مجھ سے ناحق بے دردی سے محمد عثمان قتل ہوگیا ہے۔میں بے چین ہوں ” اس طرح جرم کی یہ سفاک داستان اپنے اندر بہت سے سبق کو لے کر اپنے اختمام کو پُہنچ رہی ہے۔ کہ بچوں پر والدین کو کڑی نظر رکھنا چاہئے۔ اس سٹوری میں بہت سی تشنگی ابھی بقایا ہے۔ مگر اس تشنگی پر جسم کی ہوس بھاری ہو جاتی ہے۔ جب تصور کا یارانہ چل رہا تھا۔ تو کیا والدین کا نوٹس لینا ضروری نہیں تھا؟ ایک قیمتی جان بنا کسی قصور اور گناہ کے موت کے منہ میں چلی گئی۔ ماں باپ کی آرزوؤں کا خون ہُوا۔ اور ایک خاندان کا شاندار مستقبل اندھیروں کی نظر ہوا۔ ملزم جسمانی ریمانڈ کے بعد جیل جا چکا۔ کچھ دنوں تک پولیس چالان سپرد عدالت کر دے گی۔ جانے والا لوٹ کے نہیں آ سکتا۔ اور مارنے والا سزا سے نہیں بچ سکتا۔ ہوس کی اس داستان نے ماں کی گود اُجاڑی تو باپ کی کمر توڑ ڈالی۔۔ رب غریق رحمت کرے۔
very sad incident
Allah magfirat frmaye…ameen